Thursday, 21 May 2015

اولاد مؤمن ومشرکین

اولاد مؤمنین اپنے والدین کے ساتھ ہوگی:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان آدمی کی اولاد کا درجہ بلند کر (کے ان کواعلیٰ درجہ کے جنتی آدمی کے درجہ تک) پہنچادیں گے اگرچہ وہ عمل میں اس جنتی سے کم ہوں گے؛ تاکہ اس کی آنکھوں کوڈھنڈا کردیں پھرحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ (الطور:۲۱) یعنی جولوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا (ان آباء مؤمنین کے اکرام اور ان کوخوش کرنے کے لیے) ہم ان کی اولاد کو بھی (درجہ میں) ان کے ساتھ شامل کردیں گے اور (اس شامل کرنے کے لیے) ہم ان (اہل جنت متبوعین) کے عمل میں کوئی چیز کم نہیں کریں گے۔ 
(البدورالسافرہ:۱۷۱۴، بحوالہ ہناد فی الزہد)

یعنی یہ نہ کریں گے کہ ان متبوعین کے بعض اعمال لے کران ذریت کودے کردونوں کوبرابر کدریں، جیسے مثلاً ایک شخص کے پاس چھ سوروپے ہوں اور ایک کے پاس چارسو اور دونوں کوبرابر کرنا مقصود ہوتواس کی ایک صورت تویہ ہوسکتی ہے کہ چھ سوروپے والے سے ایک سولیکر اس چار سووالے کودیدیئے جائیں کہ دونوں کے پانچ پانچ سوہوجائیں اور دوسری صورت جوکریموں کی شان کے لائق ہے یہ ہے کہ چھ سووالے سے کچھ نہ لیا جائے بلکہ اس چارسووالے کودوسوروپے اپنے پاس سے دیدیں اور دونوں کوبرابر کردیں؛ پس مطلب یہ ہے کہ وہاں پہلی صورت واقع نہیں ہوگی۔



اولاد مشرکین اہلِ جنت کی خادم ہوگی:

حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی (نابالغ) اولاد کے متعلق سوال کیا، ان کے گناہ تونہیں ہوں گے (کیونکہ وہ نابالغ ہونے کی وجہ سے شریعت کے مکلف نہیں ہوئے تھے) اس لیے ان کوسزا نہیں دی جائے گی کہ ان کودوزخ میں داخل کیا جائے اور ان کی نیکیاں بھی نہیں ہوگی کہ ان کوجنت کا مالک بنایا جائے (لہٰذا وہ کہاں جائیں گے؟) توجناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ اہلِ جنت کے خادم ہوں گے۔ 
(تذکرۃ القرطبی:۲/۵۱۶)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے رب سے اولاد مشرکین کوطلب کیا تواللہ تعالیٰ نے ان کومجھے اہلِ جنت کے خدمتگار بناکر عطاء فرمایا: کیونکہ وہ شرک تک نہیں پہنچے تھے جس طرح سے ان کے والدین پہنچے ہیں بلکہ یہ میثاق اور (وعدہ الست) سے وابستہ ہیں۔ 
(کنزالعمال:۳۹۳۰۶، بحوالہ نوادرالاصول)



مؤمنین کی اولاد کی پرورش کون کررہے ہیں؟

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ذَرَارِيّ الْمُؤْمِنِينَ يَكْفُلهُمْ إِبْرَاهِيم فِي الْجَنَّة۔
(ابنِ حبان، باب وصف الجنة وأهلها،ذكر الإخبار عن وصف من يكفل ذراري المؤمنين في الجنة،حدیث نمبر:۷۴۴۶، شاملہ، الناشر: مؤسسة الرسالة)
ترجمہ:مؤمنین کی اولاد کی جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کفالت (اورپرورش) کررہے ہیں۔

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ذراري المسلمين في الجنة يكفلهم إبراهيمعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل81248125أحمد بن حنبل241
2ذراري المؤمنين يكفلهم إبراهيم في الجنةعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان76067446أبو حاتم بن حبان354
3ذراري المؤمنين في الجنة يكفلهم إبراهيمعبد الرحمن بن صخرالمستدرك على الصحيحين33252 : 369الحاكم النيسابوري405
4ذراري المسلمين يكفلهم إبراهيمعبد الرحمن بن صخرالبعث لابن أبي داود16---ابن أبي داود السجستاني316
5ذراري المسلمين في الجنة يكفلهم إبراهيمعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر4195840 : 413ابن عساكر الدمشقي571

فائدہ:حضرت مکحول مرسلا روایت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے بچے جنت کے درخت پر سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں اور ان کے ابا حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی کفالت کرتے ہیں۔ 
(معجم صغیر طبرانی، کنزالعمال:۳۹۳۰۸)
عَنْ مَكْحُولٍ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ : ... وأَنَّ ذَرَارِيَّ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَجَرَةٍ مِنْ عُصَادِ الْجَنَّةِ يَكْفُلُهُمْ أَبُوهُمْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلامُ " .


حضرت سلیمان سے موقوفاً روایت ہے کہ مؤمنین کے بچے جنت کے ایک پہاڑ میں ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور (ان کی اہلیہ) حضرت سارہ ان کی کفالت کرتے ہیں۔ 
(کنزالعمال:۳۹۳۱۰، بحوالہ طبرانی صغیر)



ہم شروع ہی سے جنت میں کیوں نہیں پیدا کئے گئے؟

ہم شروع ہی سے جنت میں کیوں نہیں پیدا کئے گئے؟ اس سوال کے حضرات علماء کرام نے تین جواب دیئے ہیں:

(۱)نعمت کی عظمت کوپہچاننا ضروری ہے اگرہم دنیا میں پیدا نہ کئے جاتے توان نعمتوں کی قدرومنزلت سے واقف نہ ہوتے (۲)تاکہ ہم انجام کار جنت میں جزاء اعلیٰ کے حق دار بن سکیں اور زوال سے محفوظ ہوجائیں (۳)تاکہ اہلِ جن تکوعزت کی تجارت حاصل ہونہ کہ سوال کرنے کی ذلت

(اور عزت کی تجارت یہ ہے کہ ہم دنیا میں شریعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کوراضی کریں اور اس سے اس اتباع کے بدلہ میں آخرت میں جنت کوحاصل کریں)۔

No comments:

Post a Comment