Friday, 8 January 2016

جنتیوں کی باہم ملاقاتیں اور سواریاں

جنتی کی جنتیوں اور دوزخیوں سے ملاقاتیں:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَo قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌo يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَo أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّالَمَدِينُونَo قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَo فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِo قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِo وَلَوْلَانِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَo أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَo إِلَّامَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَانَحْنُ بِمُعَذَّبِينَo إِنَّ هَذَا لَهُوَالْفَوْزُ الْعَظِيمُo لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ۔
(الصافات:۵۰ تا ۶۱)

ترجمہ: پھر (جب سب لوگ ایک جلسہ میں جمع ہوں گے تو) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر بات چیت کریں گے (اس بات چیت کے دوران میں) ان (اہلِ جنت) میں سے ایک کہنے والا (اہلِ مجلس سے) کہے گا کہ (دنیا میں) میرا ایک ملاقاتی تھا وہ مجھ سے بطورِ تعجب کہا کرتا تھا کہ کیا تو (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے) ماننے والوں میں سے ہے؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے توکیا ہم (دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور زندہ کرکے) جزاء وسزادیئے جائیں گے؟ (یعنی وہ آخرت کا منکر تھا، اس لیے ضرور وہ دوزخ میں گیا ہوگا، اللہ تعالیٰ کا) ارشاد ہوگا کہ (اے اہلِ جنت!) کیا تم جھانک کر (اس کو) دیکھنا چاہتے ہو؟ (اگرچاہو توتم کواجازت ہے) سووہ شخص (جس نے قصہ بیان کیا تھا) جھانکے گا اس کوجہنم کے درمیان میں (پڑا ہوا) دیکھے گا (اس کووہاں دیکھ کراس سے) کہے گا کہ خدا کی قسم تو، تومجھ کوتباہ ہی کرنے کوتھا (یعنی مجھ کوبھی منکر آخرت بنانے کی کوشش کیا کرتا تھا) اور اگرمیرے رب کا (مجھ پر) فضل نہ ہوتا (کہ مجھ کواس نے صحیح عقیدے پرقائم رکھا) تومیں بھی (تیری طرح) عذاب میں گرفتار لوگوں میں ہوتا (اور اس کے بعد جنتی اہلِ مجلس سے کہے گا کہ) کیا ہم بجز پہلی بار مرچکنے کے (کہ دنیا میں مرچکے ہیں) اب نہیں مریں گے اور نہ ہم کوعذاب ہوگا (یہ ساری باتیں اس جوش مسرت میں کہی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ نے سب آفات اور کلفتوں سے بچالیا اور ہمیشہ کے لیے بے فکر کردیا، آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جنت کی جنتی جسمانی اور روحانی نعمتیں اوپر کی آیات میں بیان کی گئی ہیں) یہ بے شک بڑی کامیابی ہے، ایسی ہی کامیابی (حاصل کرنے) کے لیے عمل کرنے والوں کوعمل کرنا چاہیے (یعنی ایمان لانا اور اطاعت کرنی چاہئے)۔



اہلِ جنت کا دنیا میں آپ بیتیوں کا مذاکرہ:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَo قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَo فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِo إِنَّاكُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ۔ 
(الطور:۲۵ تا ۲۸)

ترجمہ:وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر بات کریں گے (اور اثنائے گفتگو میں) یہ بھی کہیں گے کہ (بھائی) ہم تواس سے پہلے اپنے گھر (یعنی دنیا میں انجام کار سے) بہت ڈرا کرتے تھے، سو!خدا نے ہم پربڑا احسان کیا اور ہم کوعذاب دوزخ سے بچالیا (اور) ہم اس سے پہلے (یعنی دنیا میں) اس سے دعائیں مانگا کرتے تھے (کہ ہم کودوزخ سے بچا کر جنت میں لے جائے؛ سو! اللہ نے دعا قبول کرلی) وہ واقعی بڑا محسن مہربان ہے۔



علمی محافل بھی قائم ہوں گی:

علامہ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب اہلِ جنت آپس کی آپ بیتیاں ایک دوسرے کوسنائیں گے توان میں علم کے مسائل، فہم قرآن وسنت اور صحت احادیث پرگفتگو زیادہ قرینِ قیاس ہے؛ کیونکہ دنیا میں اس کا مذاکرہ کھانے پینے اور جماع سے زیادہ لذیذ ہے تو اس کا مذاکرہ جنت میں بھی بہت ہی لذیذ ہوگا اور یہ لذت صرف اہلِ علم کے ساتھ خاص ہوں گی جو لوگ اہلِ علم میں سے نہ ہوں گے وہ ان محافل کے شرکاء بھی نہ ہوں گے، واللہ اعلم۔ 
(حادی الارواح:۴۸۹)



ملاقات کا انداز وگفتگو:

حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَادَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ اشْتَاقُوا إِلَى الْإِخْوَانِ، فَیَجِیٔ سَرِيرُ هَذَا حَتَّی یُحَاذِی سَرِيرِ هَذَا، فَيُحَدِّثَانِ فَیَتکیٔ إِذَاوَیَتَّکِیٔ ہَذَا وَیَتَحَدَّثَانِ ِمَاكَانَ فِي الدُّنْيَا فَيَقُولَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: یَافُلَانِ تَدْرِي يَوْمَ غَفَرَ اللَّهُ لَنَا يَوْمَ کَذَا فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا فَدَعَوْنَا اللَّهَ تَعَالَی فَغَفَرَ لَنَا۔
(البدورالسافرہ:۲۱۹۷۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۳۹۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۲۱)


ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تووہ اپنے بھائیوں (اور مؤمنوں اور دوستوں) کی ملاقات کا شوق کریں گے توایک جنتی کے پلنگ کولاکر کے دوسرے جنتی کے پلنگ کے برابر رکھ دیا جائے گا؛ چنانچہ وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہیں گے اس نے بھی تکیہ لگایا ہوگا اور اس نے بھی تکیہ لگایا ہوگا، یہ دونوں حضرات دنیا میں جوکچھ ہوا اس کے متعلق باتیں کرتے رہیں گے، ان میں ایک اپنے دوست سے کہے گا اے فلاں! آپ کومعلوم ہے کہ فلاں دن فلاں اور فلاں جگہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بخشش فرمائی، جب ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی تواس نے ہمیں معاف کردیا تھا۔

المحدث : السيوطي
المصدر : البدور السافرة الصفحة أو الرقم: 476 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن





زیارت کی سواریاں:

حدیث: حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إَنّ أَهْلَ الجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ عَلَى نَّجائِبِِ بيض كَأَنَّهُنَّ اليَاقُوْتُ وَلَيْسَ فِي الْجَنَّةِ مِنَ البَهَائِمِ إِلاَّ الْإِِبْلُ وَالطَّيْرُ۔ 
(صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۴۸۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۲)
ترجمہ:جنتی حضرات یاقوت کی طرح کی خوبصور ت سفید سواریووں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی زیارت کوجائیں گے؛ جبکہ جنت میں اونٹ اور پرندے (یاگھوڑے) کے علاوہ کوئی جانور (سواری کا) نہیں ہوگا۔


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لكل شيء حقيقة فما حقيقتك قال ألست قد عزفت الدنيا عن نفسي وأظمأت نهاري وأسهرت ليلي كأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها وكأني أنظر إلى أهل النار يتضاغون فيها يعني يصيحون قال يا حارث عرفت فالزمحارث بن مالكالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر29582873ابن حجر العسقلاني852
2لكل حق حقيقة قال ألست قد عزفت الدنيا عن نفسي وأظمأت نهاري وأسهرت ليلي وكأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها وكأني أنظر إلى أهل النار يتضاغون فيها يعني يصيحون قال يا حارث عرفت فالزمحارث بن مالكمسند عبد بن حميد453445عبد بن حميد249
3لكل شيء حقيقة فما حقيقة إيمانك فقال قد عزفت نفسي عن الدنيا وأسهرت لذلك ليلي واطمأن نهاري وكأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها وكأني أنظر إلى أهل النار يتضاغون فيها فقال يا حارث عرفت فالزمحارث بن مالكالمعجم الكبير للطبراني32903367سليمان بن أحمد الطبراني360
4ما حقيقة إيمانك قال قد عزفت نفسي عن الدنيا وأسهرت لذلك ليلي وأظمأت نهاري فكأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها وكأني أنظر إلى أهل النار يتضاغون فيها فقال يا حارث قد عرفت فالزمحارث بن مالكالأمالي الخميسية للشجري94---يحيى بن الحسين الشجري الجرجاني499
5لكل شيء حقيقة فما حقيقة إيمانك فقال قد عزفت نفسي عن الدنيا فأسهرت لذلك ليلي وأظمأت نهاري وكأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها وكأني أنظر إلى أهل النار يتضاغون فيها فقال يا حارث عرفت فالزمحارث بن مالكمعرفة الصحابة لأبي نعيم19472084أبو نعيم الأصبهاني430
6لكل حق حقيقة قال ألست قد عزفت الدنيا عن نفسي وأظمأت نهاري وأسهرت ليلي وكأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها ولكأني أنظر إلى أهل النار يتصارعون فيها يعني يصيحون قال يا حارث عرفت فالزمحارث بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر5784854 : 179ابن عساكر الدمشقي571
7لكل شيء حقيقة فما حقيقة إيمانك قال قد عزفت نفسي عن الدنيا وأسهرت لذلك ليلي وأظمأت نهاري فكأني أنظر إلى عرش ربي بارزا وكأني أنظر إلى أهل الجنة يتزاورون فيها وكأني أنظر إلى أهل النار يتضاعون فيها فقال يا حارث عرفت فالزمحارث بن مالكالأربعين على مذهب المتحققين من الصوفية لأبي نعيم4444أبو نعيم الأصبهاني430
8كيف أنت يا حارث فقلت رجلا من المؤمنين فقال انظر ماذا تقول قال قلت نعم رجل من المؤمنين حقا فاستوى نبي الله جالسا ثم قال إن لكل شيء حقيقة فما حقيقة ذلك قال قلت عزفت نفسي عن الدنيا وأسهرت ليلي وأخمصت نهاري فكأني أنظر إلى عرش ربي وكأني أرى أهل الجنة يتزاورونحارث بن مالكالزهد الكبير للبيهقي978981البيهقي458


مشک کا غبار اڑانے والے اونٹ:

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنتی حضرات ایک دوسرے کی ملاقات (میں جانے) کے لی بھورے رنگ کے اونٹ کو استعمال کریں گے جن پر درخت میں کی لکڑی کے کجاوے ہوں گے، اس کے پاؤں کے تلے مشک کا غبار اڑاتے ہوں گے، ان میں کے ہراونٹ کی (خالی) لگام (ہی) دنیا وما فیہا سے بہتر ہوگی۔ 
(صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۴۱)



عمدہ گھوڑے اور اونٹ:

حدیث: حضرت شفی من ماتع رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ نَعِيمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنَّهُمْ يَتَزَاوَرُونَ عَلَى الْمَطَايَا وَالنُّجُبِ , وَأَنَّهُمْ يُؤْتَوْنَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بِخَيْلٍ مُسْرَجَةٍ مُلْجَمَةٍ , لا تَرُوثُ وَلا تَبُولُ , فَيَرْكَبُونَهَا حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , فَتَأْتِيهِمْ مثل السَّحَابَةِ , فِيهَا مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ , وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ , فَيَقُولُونَ : أَمْطِرِي عَلَيْنَا , فَمَا يَزَالُ الْمَطَرُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَنْتَهِيَ ذَلِكَ فَوْقَ أَمَانِيِّهِمْ ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رِيحًا غَيْرَ مُؤْذِيَةٍ , فَتَنْسِفُ كُثْبَانًا مِنَ مِسْكِ عَنْ أَيْمَانِهِمْ , وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ , فَيَأْخُذُ ذَلِكَ الْمِسْكُ فِي نَوَاصِي خُيُولِهِمْ , وَفِي مَعَارِفِهَا , وَفِي رُءُوسِهِمْ , وَلِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ جُمَّةٌ عَلَى مَا اشْتَهَتْ نَفْسُهُ , فَيَتَعَلَّقُ ذَلِكَ الْمِسْكُ فِي تِلْكَ الْجِمَامِ ، وَفِي الْخَيْلِ ، وَفِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الثِّيَابِ , ثُمَّ يُقْبِلُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , فَإِذَا الْمَرْأَةُ تُنَادِي بَعْضَ أُولَئِكَ : يَا عَبْدَ اللَّهِ , أمَا لَكَ فِينَا حَاجَةٌ ؟ فَيَقُولُ : مَا أَنْتِ , وَمَنْ أَنْتِ ؟ فَتَقُولُ : أَنَا زَوْجَتُكَ وَحِبُّكَ ، قَالَ : فَيَقُولُ : مَا كُنْتُ عَلِمْتُ مَكَانَكِ ، فَتَقُولُ الْمَرْأَةُ : أَوَمَا تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17 , فَيَقُولُ : بَلَى وَرَبِّي , فَلَعَلَّهُ يَشْتَغِلُ عَنْهَا بَعْدَ ذَلِكَ الْمَوْقِفِ مِقْدَارَ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا , لا يَلْتَفِتُ وَلا يَعُودُ , مَا يَشْغَلُهُ عَنْهَا إِلا مَا هُوَ فِيهِ مِنَ النَّعِيمِ وَالْكَرَامَةِ " .
(صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۴۱۔ البدورالسافرہ:۲۲۰۱۔ حادی الارواح:۳۳۵۔ صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۶۷۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۴۳، الزهد لنعيم بن حماد:242)

ترجمہ: جنت کی نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جنتی حضرات ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کے لیے اونٹ اور خوبصورت سواریاں استعمال کریں گے اور یہ جمعہ کے دن زین اور لگام والے گھوڑے پرسوار ہوکر آئیں گے جونہ تولید کرتا ہوگا نہ پیشاب کرتا ہوگا، جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے، یہ اس پرسوار ہوگا، بادل کی طرح کی کوئی چیز ان کے پاس آئے گی جس میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے، یہ جنتی کہیں گے تم ہم پربرسوتووہ ان پربرستی رہے گی؛ حتی کہ بالکل ان کی خواہشات کے تکمیل پرجاکرکے تھمے گی؛ پھراللہ تعالیٰ ایک ہوا چلائیں گے جومشک کے ٹیلے اکھیڑ کرجنتیوں کے دائیں بائیں رکھدے گی؛ پھرمشک (کستوری) اڑکر جنتیوں کے گھوڑوں کی پیشانیوں، چہروں اور ان کے سروں میں سجے گی، ہرایک جنتی کے لیے جوکچھ اس کا جی چاہے گا بہت کچھ ملے گا اور یہ مشک، ان تمام چیزوں میں شامل ہوجائے گی حتی کہ گھوڑے میں بھی اس کے علاوہ کپڑوں میں بھی؛ پھریہ جنتی واپس مڑیں گے حتی کہ جوکچھ اللہ تعالیٰ چاہے گا ان نعمتوں کی انتہاء کوپہنچیں گے کہ اچانک ایک عورت ان حضرات میں سے کسی ایک کوپکارے گی کہ اے بندۂ خدا! کیا تمھیں ہماری ضرورت نہیں؟ تووہ پوچھے گا توکون سی نعمت ہے توکون ہے؟ تووہ کہے گی میں تیری دلہن ہوں اور تیری محبت ہوں وہ کہے گا مجھے معلوم نہیں ہوا توکہاں تھی؟ تووہ کہے گی کیا آپ کومعلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاأُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَاكَانُوا يَعْمَلُونَ} (ترجمہ:) سو! کسی شخص کوخبر نہیں جوجوآنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانہ غیب (جنت) میں موجود ہے، یہ ان کوان کے اعمال کا صلہ ملا ہے، تو وہ کہے گا کیوں نہیں مجھے میرے رب کی قسم! پس! شاید کہ وہ جنتی اس مجمع کے بعد چالیس سال تک ادھر اُدھر متوجہ نہ ہوگا اور نہ اس کوایسی کوئی چیز اس سے ہٹاسکے گی اس حالت میں وہ نعمت اور شان وشوکت میں رہے گا۔



شہدا کی سواریاں:

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا:
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّامَنْ شَاءَ اللَّهُ (الزمر:۶۸)(ترجمہ:) اور صور میں پھونک ماری جائے گی توتمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اُڑجائیں گے مگرجس کوخدا چاہے۔

یہ کون لوگ ہوں گے اللہ تعالیٰ جن کے ہوش قائم رکھنا چاہیں گے؟ توانہوں نے بتایا کہ یہ شہداء ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کواس حالت میں اٹھائے گا کہ انہوں نے اپنی تلواریں عرشِ خداوندی کے اردگرد لٹکائی ہوں گی فرشتے ان سے میدان محشر میں جب ملیں گے تویہ یاقوت کی عمدہ سواریوں پرسوار ہوں گے، ان کی باگیں سفید موتی کی ہوں گی، کجاوے سونے کے ہوں گے، لگاموں کی رسیاں باریک اور موٹے ریشم کی ہوں گی اور لگامیں ریشم سے زیادہ ملائم ہوں گی، ان کے قدم مردوں کی تاحد نظرپر پڑیں گے، یہ اپنے گھوڑوں پرجنت کی سیر کرتے ہوں گے، جب سیروتفریح لمبی ہوجائے گی توکہیں گے چلو ہمارے ساتھ پروردگار کی طرف ہم اس کودیکھیں کہ وہ اپنی مخلوق کے درمیان کس طرح سے فیصلہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ (ان کودیکھ کر) ان کو(خوش کرنے) کے لیے ہنس پڑیں گے اور جب اللہ عزوجل کسی بندہ کی طرف کسی موقع پردیکھ کرہنس پڑیں تواس سے

(قیامت کے دن اعمال کا) حساب وکتاب نہیں ہوگا۔
(صفۃ الجنۃ، ابن ابی الدنیا:۲۴۲۔ حادی الارواح:۳۳۰۔ درمنثور:۵/۳۳۶)



اعلیٰ جنتی کا گھوڑا:

حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَخْرُجُ مِنْ أَعْلَاهَا حُلَلٌ، وَمِنْ أَسْفَلِهَا خَيْلٌ مِنْ ذَهَبٍ مُسْرَجَةٍ مُلْجَمَةٍ مِنْ يَاقُوتٍ وَدُرٍّ، لَاتَرُوثُ وَلَاتَبُولُ، لَهَا أَجْنِحَةٌ خَطْوُهَا مَدُّ بَصَرِهَا فَيَرْكَبُهَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فَتَطِيرُ بِهِمْ حَيْثُ شَاءُوا، فَيَقُولُ الَّذِي أَسْفَلُ مِنْهُمْ دَرَجَةً: يَارَبِّ مَابَلَّغَ عِبَادَكَ هَذِهِ الْكَرَامَةَ؟ فَيُقَالُ لَهُمْ: إِنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ اللَّيْلَ وَأَنْتُمْ تَنَامُونَ، وَكَانُوا يَصُومُونَ وَكُنْتُمْ تَأْكُلُونَ، وَكَانُوا يُنْفِقُونَ وَكُنْتُمْ تَبْخَلُونَ، وَكَانُوا يُقَاتِلُونَ وَكُنْتُمْ تَجْبُنُونَ۔ 
(صفۃ الجنۃ، ابن ابی الدنیا:۲۴۲۔ حادی الارواح:۳۳۰۔ درمنثور:۵/۳۳۶)

ترجمہ: جنت میں ایک درخت ہے جس کے اوپر کے حصہ سے پوشاکیں نکلیں گی اور نچلے سے یاقوت اور جوہر کی زین اور لگام سمیت سونے کا گھوڑا نکلے گا، یہ نہتولید کریگا اور نہ پیشاب، اس کے کئی پرہوں گے، اس کا قدم تاحدنگاہ پرپڑےگا، جنتی اس پرسوارہوں گے اور جہاں چاہیں گے یہ ان کولیکر اڑے گا، وہ جنتی جوان سے نچلے درجہ میں ہوگا وہ کہے گا: اے رب! کس عمل نے تیرے ان بندوں کواس شان وشوکت تک پہنچایا ہے؟ توان سے کہا جائے گا: (۱)یہ لوگ رات کونماز پڑھتے تھے جب تم سورہے ہوتے تھے (۲)یہ لوگ روزہ میں ہوتے تھے جب کہ تم کھارہے ہوتے تھے (۳)یہ لوگ صدقہ خیرات کرتے تھے جب کہ تم بخل کرتے تھے (۴)یہ لوگ جہاد کرتے تھے جب کہ تم بزدلی دکھاتے تھے۔



جنت کے گھوڑے اور اونٹ:

حدیث: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا جنت میں گھوڑا بھی ہوگا؟ توآپ نے ارشاد فرمایا اگراللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں داخل فرمائیں گے توجب چاہے گا کہ یاقوت احمر کے گھوڑے پرسوار ہواور وہ تمھیں جنت میں اُڑاتا پھرے توتوسوار (ہوکرجنت کی اس طرح سے سیر کرسکے گا) ایک اور صحابی نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا جنت میں اونٹ ہوگا؟ توآپ نے اس کوویسا جواب نہ دیا جیسا کہ پہلے صحابی کودیا تھا؛ بلکہ فرمایا:اگرآپ کواللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائیں گے توآپ کے لیے جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کا تمہارا دل چاہے گا اور تمہاری آنکھوں کولذت ملے گی۔
(حدیث حسن، زہد ابن مبارک:۲/۷۷۔ ابن جریر، تفسیر:۲۵/۵۸۔ شرح السنہ:۱۵/۲۲۲)



اللہ کی زیارت کے لیے لے جانے والا گھوڑا:

حدیث:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ جَاءَتْهُمْ خُيُولٌ مِنْ يَاقُوتٍ أَحْمَرَ لَهَا أَجْنِحَةٌ لا تَبُولُ ، وَلا تَرُوثُ ، فَقَعَدُوا عَلَيْهَا ، ثُمَّ طَارَتْ بِهِمْ فِي الْجَنَّةِ ، فَيَتَجَلَّى لَهُمُ الْجَبَّارُ فَإِذَا رَأَوْهُ خَرُّوا سُجَّدًا ، فَيَقُولُ لَهُمُ الْجَبَّارُ تَعَالَى : ارْفَعُوا رُءُوسَكُمْ ، فَإِنَّ هَذَا لَيْسَ يَوْمَ عَمَلٍ إِنَّمَا هُوَ يَوْمُ نَعِيمٍ وَكَرَامَةٍ ، قَالَ : فَيَرْفَعُونَ رُءُوسَهُمْ ، فَيُمْطِرُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ طِيبًا فَيَمُرُّونَ بِكُثْبَانِ الْمِسْكِ فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَلَى تِلْكَ الْكُثْبَانِ رِيحًا فَيَهِيجُهَا عَلَيْهِمْ حَتَّى إِنَّهُمْ لَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ ، وَإِنَّهُمْ لَشُعْثٌ غُبْرٌ .
(صفۃ الجنۃ ابونعیم:۴۲۹،457 نہایہ ابن کثیر:۲/۵۱۵، کتاب العظمۃ ابوالشیخ۔ حادی الارواح:۳۳۱۔ کتاب الشریعۃ آجری:۲۶۷)
ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے توان کے پاس یاقوت احمرکے گھوڑے پیش ہوں گے جن کے پربھی ہوں گے جونہ تولید کریں گے نہ پیشاب، یہ حضرات ان پرسوار ہوں گے اور یہ گھوڑے ان کواٹھاکر اڑیں گے، اللہ تعالیٰ جبار ان کے سامنے تجلی فرمائیں گے تویہ حضرات اللہ تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہی سجدہ میں گرجائیں گے تواللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے: اپنے سراٹھالو! کیونکہ یہ عمل کرنے دن کا نہیں ہے یہ نعمتوں اور عزت ومرتبہ پانے کا دن ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ جنتی اپنے سراٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان پرخوشبو پاشی کریں گے؛ پھریہ مشک کے ٹیلوں کے پاس سے گذریں گے تواللہ تعالیٰ ان ٹیلوں پرایسی ہوا چلائیں گے کہ وہ ان جنتی حضرات کومعطر کردے گی؛ حتی کہ جب یہ اپنے گھروالوں کی طرف واپس لوٹیں گے توبال کھلے ہوئے مشک آلود ہوں گے۔



جنتی حضرات علماء کرام کے جنت میں محتاج ہوں گے:

حدیث:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَحْتَاجُونَ إِلَى الْعُلَمَاءِ فِي الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ يَزُورُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ ، فَيَقُولُ لَهُمْ : تَمَنَّوْا عَلَيَّ مَا شِئْتُمْ ، فَيَلْتَفِتُونَ إِلَى الْعُلَمَاءِ فَيَقُولُونَ : مَاذَا نَتَمَنَّى ؟ فَيَقُولُونَ : تَمَنَّوْا عَلَيْهِ كَذَا وَكَذَا ، قَالَ : فَهُمْ يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِمْ فِي الْجَنَّةِ ، كَمَا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِمْ فِي الدُّنْيَا .
(مسندالفردوس دیلمی:۸۸۰۔ لسان المیزان:۵/۵۵۔ میزان الاعتدال:۷۰۶۶)
ترجمہ:جنت والے جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے اور وہ اس طرح سے کہ جنتی ہرجمعہ کواللہ تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوں گے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے تم جوچاہو تمنا کریں؟ تووہ بتائیں گے کہ تم اس اس طرح کی تمنا کرو؛ چنانچہ یہ حضرات جنت میں علماء کرام کے اسی طرح سے محتاج ہوں گے جس طرح سے یہ ان کے دنیا میں محتاج ہیں۔

حضرت سلیمان بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جنت والے لوگ جنت میں علماء کرام کے محتاج ہوں گے جس طرح سے وہ دنیا میں علماء کے محتاج ہوتے ہیں (وہ اس طرح سے کہ) ان کے پاس ان کے رب تعالیٰ کی طرف سے ایلچی حاضر ہوں گے اور کہیں گے کہ آپ حضرات اپنے رب تعالیٰ سے (نعمتیں) مانگو تووہ کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا مانگیں پھران میں سے ایک دوسرے سے کہے گا: چلو ان علماء کی طرف جب ہمیں دنیا میں کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تھا تب بھی توہم ان کے پاس جایا کرتے تھے؛ پھروہ (ان علماء کے پاس جاکر) کہیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے رب تعالیٰ کی طرف سے ایلچی تشریف لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کچھ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں جب کہ ہمیں علم نہیں کہ ہم کیا مانگیں؟ تواللہ تعالیٰ علماء کے سامنے (ان نعمتوں کا) اظہار کردیں گے توعلماء ان عوام اہلِ جنت کوبتائیں گے کہ تم ایسا ایسا سوال کرو؛ چنانچہ (ویسے ہی) سوال کریں گے اور ان کووہ چیزیں عطاء کی جائیں گی۔
(ابن عساکر، تاریخ دمشق ابن عساکر۔ البدورالسافرہ:۲۱۹۱)

Thursday, 21 May 2015

جنتیوں کی زبان

جنتیوں کی زبان عربی ہوگی:
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب سیددوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

يدخل أهلُ الجنةِ الجنةَ على طول آدم ستين ذراعًا بذراع الملك! على حُسْن يوسف، وعلى ميلاد عيسى ثلاث وثلاثين سنة، وعلى لسان محمد، جُرْدٌ مُرْدٌ مُكَحَّلُون۔

(احمد:۵/۲۴۳۔ ترمذی:۲۵۴۵۔ حادی الارواح:۴۷۶)

ترجمہ:جنتی حضرات جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کے طویل قد کے برابر اللہ جل شانہ کے ہاتھ کے حساب سے ساٹھ ہاتھ کے ہوں گے، حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن پرہوں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کی ۳۳/سال کی عمر میں ہوں گے اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان (عربی) پرہوں گے نہ توجسم پربال ہوں گے نہ داڑھی ہوگی آنکھوں میں سرمہ لگائے گئے ہوں گے۔

نوٹ: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اس کی شان کے اعتبار سے ہے اس کوکسی محسوس ہاتھ سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی اگرہاتھ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت مرادلی جائے توکچھ بعیدنہیں جیسا کہ ابن فورک رحمۃ اللہ علیہ نے ید سے قدرت کا معنی مراد لیا ہے۔  

(مشکل الحدیث ابن فورکؒ)

(پھرمعنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے جتنا ان کا قدمناسب سمجھیں گے ان کوعطاء فرمائیں گے) امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ جنت کی زبان عربی ہوگی۔                  

(صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۱۴،۲۱۶۔ زوائد ابن المبارک:۲۴۵)


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1يدخل أهل الجنة الجنة جردا مردا مكحلينأنس بن مالكالأحاديث المختارة2431---الضياء المقدسي643
2يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاثة وثلاثين سنة جردا مردا مكحلين ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة فيكتبون فيها لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكالأحاديث المختارة2432---الضياء المقدسي643
3لقد شبت لا شب قرنهاأنس بن مالكإتحاف المهرة300---ابن حجر العسقلاني852
4يدخل أهل الجنة الجنة جردا مردا مكحلينأنس بن مالكالمعجم الصغير للطبراني1162140سليمان بن أحمد الطبراني360
5يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاث وثلاثين جرد مرد مكحلين ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة فيكسون فيها ثيابا لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكحديث أبي الفضل الزهري3546الحسن بن علي الجوهري381
6يبعث أهل الجنة في صورة آدم ميلاد ثلاثة وثلاثين مردا جردا مكحلينأنس بن مالكفوائد تمام الرازي825891تمام بن محمد الرازي414
7يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاث وثلاثين جردا مكحلين ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة فيكسون منها ثيابا لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكالطيوريات5054 : 1366أبو الحسن الطيوري500
8يدخل أهل الجنة الجنة على طول آدم ستين ذراعا بذراع الملك على حسن يوسف وعلى ميلاد عيسى ثلاث وثلاثين سنة وعلى لسان محمد جرد مرد مكحلونأنس بن مالكالأحاديث المائة للحافظ العلامة محمد بن علي بن طولون94---محمد بن علي بن طولون953
9يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاث وثلاثين سنة جردا مردا مكحلين ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة فيكسون منها لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكالبعث لابن أبي داود66---ابن أبي داود السجستاني316
10يبعث أهل الجنة يوم القيامة في صورة آدم جرد مرد مكحلين أبناء ثلاثين ثم يؤتى بهم شجرة في الجنة فيكسون منها لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكالعظمة493582أبو الشيخ الأصبهاني369
11يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاث وثلاثين جردا مكحلين ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة فيكسون منها ثيابا لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكالبعث والنشور للبيهقي409418البيهقي458
12يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاث وثلاثين سنة مردا مكحلين ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة فيكسون منها لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكحلية الأولياء لأبي نعيم32863289أبو نعيم الأصبهاني430
13كل من يدخل الجنة على صورة أبناء ثلاث وثلاثين بيض مرد مكحلون طول ستين ذراعا ونساؤهم يخرجون متخصرات إلى شجرة في الجنة يقال لها طوبى ينغمن بأحسن أصوات يسمعه الأولون والآخرون يقلن نحن خيرات حسان أزواج قوم كرام ينظرن في قرة عين تعفو أشعارهن أقدامهن فإذا أتينأنس بن مالكتاريخ واسط لأسلم بن سهل الرزاز6171 : 210أسلم بن سهل الرزاز292
14كل من يدخل الجنة على صورة أبناء ثلاث وثلاثين سنة بيض مرد مكحولون وطوله ستون ذراعاأنس بن مالكالكني والأسماء للدولابي1080760أبو بشر الدولابي310
15تدخلون الجنة مردا مكحلين ذوي أفانين يعني الجمام أبناء ثلاثين على صورة يوسف وقلب أيوبأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر2151822 : 223ابن عساكر الدمشقي571
16يبعث أهل الجنة في صورة آدم ميلاد ثلاثة وثلاثين مردا جردا مكحلينأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر6723962 : 29ابن عساكر الدمشقي571
17يدخل أهل الجنة الجنة على طول آدم ستون ذراعا بذراع الملك على حسن يوسف وعلى ميلاد عيسى ثلاث وثلاثون سنة وعلى لسان محمد جرد مرد مكحلونأنس بن مالكصفة الجنة لابن أبي الدنيا215220ابن أبي الدنيا281
18يبعث الناس يوم القيامة في صورة آدم جردا مردا مكحلين أبناء ثلاث وثلاثين ثم يؤتى بهم بشجرة في الجنة فيكسون منها لا تبلى ثيابهم ولا يفنى شبابهمأنس بن مالكصفة الجنة لأبي نعيم265---أبو نعيم الأصبهاني430
19يدخل أهل الجنة جردا مكحلين أبناء ثلاث وثلاثينأنس بن مالكصفة الجنة لأبي نعيم273---أبو نعيم الأصبهاني430


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی منقول ہے۔          

(صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۱۳۔ مستدرک حاکم:۴/۸۷)

حدیث:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلاثٍ: لأَنِّي عَرَبِيٌّ، وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ، وَكَلامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِيٌّ۔

(شعب الایمان، فصل في الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم،حدیث نمبر:۱۵۶۴، شاملہ،موقع جامع الحديث)

ترجمہ:عرب والوں سے تین وجہ سے محبت رکھو؛ کیونکہ میں بھی عربی ہوں، قرآن بھی عربی میں ہے اور جنت والوں کا (باہمی) کلام بھی عربی میں ہوگا۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسالمستدرك على الصحيحين70494 : 82الحاكم النيسابوري405
2احفظوني في العرب لثلاث خصال لأني عربي والقرآن عربي ولسان أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسالمستدرك على الصحيحين70504 : 82الحاكم النيسابوري405
3أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي ولسان أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسالمعجم الأوسط للطبراني57295583سليمان بن أحمد الطبراني360
4أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسالمعجم الكبير للطبراني1128511441سليمان بن أحمد الطبراني360
5أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسفوائد تمام الرازي127134تمام بن محمد الرازي414
6أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسمعرفة علوم الحديث للحاكم3491 : 161الحاكم النيسابوري405
7أحبوا العرب لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسشعب الإيمان للبيهقي13611433البيهقي458
8أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسشعب الإيمان للبيهقي14931606البيهقي458
9أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسالوسيط في تفسير القرآن المجيد4662 : 599الواحدي468
10أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباستاريخ دمشق لابن عساكر17446---ابن عساكر الدمشقي571
11أحبوا العرب لثلاث لإني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباستاريخ دمشق لابن عساكر1897320 : 139ابن عساكر الدمشقي571
12أحبوا العرب لثلاث لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربيعبد الله بن عباسالجليس الصالح الكافي والأنيس الناصح الشافي المعافى بن زكريا630630المعافى بن زكريا390
13أحبوا العرب لثلاث لأني عربي وكلام أهل الجنة عربي والقرآن عربيعبد الله بن عباسالفوائد المجموعة للشوكاني10161 : 326الشوكاني1255

فائدہ: علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنتی جب قبروں سے اُٹھیں گے توان کی زبان سریانی ہوگی اور حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ لوگ قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے سے پہلے سریانی زبان بولیں گے اور جب جنت میں داخل ہوچکیں گے توعربی زبان میں بات چیت کریں گے۔                 

(البدورالسافرہ:۲۱۸۰۔ صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۹۳)

یہ سریانی اور عربی بغیر سیکھنے کے خود بخود آجائے گی۔